journalist/columnist,now with 92 news, a book worm,socially conservative,politically liberal ,religiously moderate, so called Sufi , ,believe in reforms.
سوال ایک ہی ہے کہ ہم خدا کی بنائی دنیا اور اس کے بتائے احکامات کے مطابق چلنے کو رضامند ہیں یا انسانوں کی بنائی دنیا اور ان کے بنائے من پسند اصولوں کو مانیں گے؟ اسی فیصلے پر سب کچھ منحصر ہے، ہم جنس پرستی ہو فحاشی یا غیر قانونی جسمانی تعلق یہ سب اسی فیصلے کے نتیجے میں طے ہوں گے
کوئی مان سکتا ہے کہ میاں نواز شریف لاہور سے پونے دو لاکھ ووٹ لے کر گئے ، پولنگ ختم ہونے کے اٹھارہ گھنٹے بعد۔
یہ مانا جا سکتا ہے کہ پورے کے پی میں صفایا ہو گیا،ہشاور سے بلور تک ہار گئے اور نور عالم خان جیسا لوٹا ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر جیت گیا۔
قیصرہ الہی چالیس ہزار ک لیڈ
ایک لڑکی کے اغوا کے بعد اس کی تلاش میں چھاپے مارے گئے تو صرف سرگودھا ضلع سے ڈیڑھ سو اغواشدہ لڑکیاں برآمد ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر اس بچی کو ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی جاتی تو یہ ڈیڑھ سو لڑکیاں بے یارومددگار برے ہاتھوں میں رہ جاتیں، ان میں سے کچھ قحبہ خانوں میں تھیں۔پولیس کہاں تھی پھر؟
بھیا ریٹائر افسران جانیں اور ان کی تنظیم جانے، مگر جس انداز سے اعزاز سید صاحب سوال کرتے ہیں، یہ صحافت نہیں، یہ صحافتی روایات ہے نہ اخلاقیات اور نہ ہی طرز ۔ اعزاز سید کو چاہیے کہ یا تو صحافت چھوڑ کر پولیٹیکل ورکر بن جائیں یا دنیا بھر کے صحافیوں کی طرح سوال پوچھنے کا سلیقہ سیکھیں
ٹرن آوٹ اچھا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں نے ابتدائی گھنٹوں ہی میں پہنچ کر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ ووٹنگ سلو رہی مگر لوگ ڈٹے رہے۔ اب لگتا ہے نتائج تبدیل کرنا پڑیں گے۔ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ضرورت ہوگی ۔ کرلیں گے وہ بھی، جب اتنا کیا ہے تو آگے دھاندلی کرتے کس کو شرم آئے گی؟
پی ٹی وی پر ایک مرد ٹرینر سے ورزش کی ٹریننگ لینے والی خاتون کی ویڈیو پر انصار عباسی کی تنقید بالکل جائز اور درست ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟میں تو بیٹی کو ایسے لباس میں ٹی وی پر مرد ٹرینر سے ٹریننگ دلوانے نہ بھیجوں۔کیا اپ کر سکتے ہیں؟
ن لیگ اور پی ڈی ایم کے سب سے بڑے حامی ٹی وی چینل جیو نیوز پر ابھی جیو ملتان کے بیوروچیف شہادے حسین نے انکشاف کیا ہے کہ ملتان کی قومی اسمبلی کی چھ اور صوبائی اسمبلی کی بارہ نشستوں پر ایک لاکھ تین سو چوالیس ووٹ مسترد ہوئے ہیں۔
یہ فارم سنتالیس کے مطابق ہیں۔
جی اپ نے درست
میں عمران خان کی حمایت کو اپنا جرم سمجھتا ہوں۔پہلے تو اس پر صرف معذرت خواہ تھا، اب مجھے لگتا ہے کہ نہیں اس کے لئے صلواتہ التوبہ پڑھنی چاہیے اور کفارہ کے طور پر نفلی روزے رکھنے چاہئیں۔ رب کریم یہ غلطی بخش دے اور آئندہ ایسی غلطیوں سے بچائے، آمین۔
قومی اسمبلی ختم ہوئی اورپاکستانی تاریخ کی بدترین حکومت بھی اپنے نالائق ترین وزیراعظم اور لالچی،خودغرض بے شرم وزیروں سمیت رخصت ہوئی ، ویسے مناسب لفظ تو اور ہے۔ شہبازشریف اور ان کے سو کے قریب وزرا،مشیر،معاون تاریخ کے کوڑے دان میں جائیں گے، اس کاسب سے گندا نچلا حصہ ان کا مقدر ہے۔
تحریک انصاف لاہور کے کارکنوں نے پی ٹی آئی کی لاج رکھ لی ہے،تحریک انصاف کو برگر پارٹی کہاجاتا ہے۔ ن لیگیوں کا خیال تھا کہ انصافین احتجاج نہیں کر سکتے۔ آج لاہور میں انصافین نے یہ تاثر غلط ثابت کر دیا۔ حماد اظہر نے تو کمال کر دکھایا، ڈاکٹر یاسمین راشد نے حیران کر دیا۔
اس الیکشن میں ایک اور باریک سی واردات ڈالی گئی۔
جب رات نو بجے الیکشن نتائج روک دئیے گئے اور بدلنے کی تدبیر ہوئی تاکہ باو جی کو قوم پر مسلط کیا جا سکے تو
کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ ہر ایسے ضلع میں جہاں تحریک انصاف سوئپ کر رہی ہے، وہاں ان کا ایک بندہ جتوا دیا جائے تاکہ ن لیگ کا
لاہور میں آج مینار پاکستان پر تاریخی جنازہ ہوا ہے۔ آج والا جنازہ ملین جنازہ تھا، کم سے کم بھی دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہوں گے ۔ ایسا تاریخی جنازہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ خود کو عالی مرتبتﷺ کا چوکیدار کہتے تھے، رب نے لگتا ہے یہی ادا قبول کر لی۔
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ فیصلہ میرٹ پر ہوا یا وکیلوں نے غلطیاں کی ہیں یا عمران خان کو سائفر لہرانے کی وجہ سے سزا ملی، تو ایسے ہر شخص کو اپنے اندر کا جائزہ لینا چاہئیے کیونکہ اس کا تعصب اور غصہ اس کی دیانت دارانہ رائے پر غالب آ چکا ہے۔
ایک دلچسپ تبصرہ ابھی پڑھا
شہباز شریف اور راجہ ریاض کی نگران وزیراعظم مقرر کرنے کے حوالے سے ون ٹوون ملاقات، دونوں ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ نگران وزیراعظم کون آرہا ہے ؟ اور کیا اسے آپ پہشانتے (پہچانتے)ہیں؟
حال ویسے یہی ہے، لطیفہ سچا لگ رہا اے۔
نواز شریف عمران خان کو بہادری کے درس دے رہے ہیں، حیرت ہے۔جو خود بیماری کا بہانہ کر کے ملک سے بھاگا ہوا، وہ کیسے دوسرے کو طعنہ دے سکتا ہے؟لگتا ہے ڈھٹائی ال شریف کا مزاج بن چکی
محترمہ بے نظیر بھٹو کی جعلی تصاویر و کردارکشی ، تمہینہ درانی کی کتاب کی مفت ترسیل، جمائما کے خلاف مہم، ریحام خان کی غلیظ اور گھٹیاکتاب ، عائشہ گلالئی کےبازاری الزامات، آڈیو اورویڈیوز کے ڈرامے اور اب ، ہاجرہ خان کی کتاب۔۔۔۔ یہ تمام گھٹیا، مکروہ کام ن لیگ ہی کیوں کرتی ہے؟
میرا خیال ہے کہ ریٹائر فوجی افسران اگر پریس کلب کے باہر کے بجائے کلب کے اندر پریس کانفرنس کر لیتے تو کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ یہ مس مینجمنٹ نہ جانے کون کر رہا ہے، ناخوشگوار تاثر اس سے بن رہا ہے۔ ریٹائر فوجی افسران کی پریس کلب میں کانفرنس روٹین کی چیز تھی، اسے روکنا خبر بن گیا
ہمارے کئی سوشل میڈیائی دانشوروں کا خیال ہے کہ عمران خان نالائق یے، اسے سیاست کی سمجھ نہیں، اپنا کیس اس نے تباہ کر لیا، سیاست ختم کر لی وغیرہ وغیرہ۔ میں سوچتا ہوں کہ عمران خان آج ملک کا مقبول ترین سیاستدان ہے، ملکی سیاست اس کے گرد گھوم رہی ہے،کامیاب وہ ہے یا اس کے مخالف؟
دو باتیں صاف اور واضح ہیں۔
ایک یہ کہ عمران خان کے نام ہر عوام نے بے تہاشا ووٹ ڈالے۔ ہر ایک کو حیران کر دیا۔
ہنجاب اور کے پی میں ایسی ایسے حلقوں میں خان کو ووٹ ملا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
دوسرا یہ بھی کلئیر بات ہے کہ الیکشن نتائج روک کر کم از کم پنتالیس پچاس سیٹوں کے
کیا اپ جانتے ہیں کہ شیخوپورہ میں معروف ن لیگی لیڈر رانا تنویر کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار چودھری ارشد منڈا کو پولیس نے گرفتار کر رکھا ہے۔ الیکخن میں صرف پانچ دن رہ گئے اور ایم این اے کے امیدوار ہی کو پکڑ لیا جائے۔ کیا رانا تنویر اتنے خوفزدہ ہیں؟
پاکستانی عدلیہ کی عالمی سطح پر ریٹنگ بہت ہی بری ہے مگر عمران خان کے خلاف کیس میں جج قدرت اللہ نے عالمی "ریکارڈ "قائم کیا ہے۔ فرد جرم ع کے دو دن میں چھبیس گھنٹے سماعت کر کے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزا سنائی گئی۔ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کا پہلاواقعہ۔ خوفناک۔ افسوسناک
پی ڈی ایم حکومت نے پارلیمنٹ کی قرارداد کی مدد سے اپنی دانست میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔
بھیا ایک اور قرارداد منظور کر کے اپنے لیڈر کی سزا بھی معاف کرا لو۔ بے چارے جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ دے کر تین سال سے باہر بیٹھے ہیں۔ شائد اس بہانے واپس ہی آ جائیں۔
ایک حیران کن بات سنیں۔ ملتان میں عامر ڈوگر نے ڈیڈھ لاکھ ووٹ لے کر فتح حاصل کی، ساتھ والے حلقے سے زین قریشی ایک لاکھ اکیس ہزار ووٹ لے کر جیتا اور بالکل ساتھ والے حلقے سے مہربانو قریشی کو صرف ستر ہزار ووٹ ملے
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ایک ہی شہر کا ایک واضح ٹرینڈ ہے مگر اچانک مہربانو
مجھے جماعت اسلامی سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے، واحد جماعت ہے جو ہر بحران میں عوام کی مدد کو پہنچتی ہے، چولستان یہ واحد جماعت ہے جو وہاں گئی، پانی کے ٹینکر پہنچائے، امیر جماعت چولستان گئے، لوگوں کے دکھ درد بانٹے، اس کے باوجود میڈیاان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ عوام کو بھی احساس نہیں
پی ٹی آئی کے کارکنوں اور ووٹرز کو ایک مفت مشورہ۔ ان ناقص اور کمزور عدالتی فیصلوں پر مشتعل یا فرسٹریٹ ہونے کے بجائے انہیں اپنی قوت نکالیں۔ ٹکرائے ، لڑے بغیر اپنی قوت محفوظ رکھیں اور آٹھ فروری کو باہر نکل کر ووٹ ڈالیں۔ ووٹ کے ذریعے ہی آپ اچھا جواب دے سکتے ہیں۔
یہ دلچسپ خبر ہے خانیوال سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے پیر ظہور قریشی نے تحریک انصاف کو جوائن کیا ، اس وقت تو ن لیگ مین شمولیت فائدہ پہنچا سکتی ہے کیونکہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ لگتا ہے ظہور قریشی صاحب نے عوامی حمایت کوا ہم سمجھا ہے
حافظ نعیم ہمیشہ حیران کر دیتے ہیں۔
اب انہوں نے سندھ اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کہہ کر کہ اس سیٹ پر ازاد امیدوار یعنی تحریک انصاف کا حمایت یافتہ آزاد امیدوار نے مجھ سے زیادہ ووٹ لئے ہیں۔
بہت خوب۔شاندار۔
جماعت اسلامی والوں سے ہی ایسی اخلاقیات کے مظاہرے
پختون خوا کے نومنتخب وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی تقریر عمدی تھی تحمل اور میچورٹی کے ساتھ۔
علی امین گنڈاپور کے جارحانہ انداز سے اس شاندار تقریر کی توقع نہیں تھی۔
پوری اسمبلی سے اس نے کھڑے ہو کر حلف دلوایا کہ کرپشن کریں گے نہ کرپشن کرنے دیں گے۔ بہت خوب۔
لگتا ہے کہ عمران خان
غریدہ فاروقی کو کون صحافی کہے گا۔ اگر ایک سیاسی جماعت کے گھٹیا ٹاوٹ اور عقل سے پیدل باندی کا کردار ادا کیا جائے تو اسے صحافت نہیں کہتے۔ افسوس کہ ایسوں کو ٹی وی کی سکرین مل گئی
فیس بک کی کمیونٹی سٹینڈرڈ کے نام پر بدترین سنسرشپ۔ کوئی اس پر بات کرے گا؟ کشمیر پر پوسٹ نہیں کر سکتے، طالبان پر کچھ نہیں لکھ سکتے، مغرب پر تنقیدی پوسٹ نہیں اور اب خادم رضوی کانام تک نہیں لکھا جا سکتا۔ آخر یہ کیا ہے؟ اس کے خلاف کون آواز اٹھائے گا؟
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں واحد چوائس حافظ نعیم اور ان کی ٹیم ہی بنتے ہیں۔ حافظ نعیم پڑھے لکھے، ایماندار اور دبنگ آدمی ہیں، وہ کراچی کے مسائل جانتے ہیں، ڈٹ کر بات کر سکتے ہیں، انہیں موقعہ دینا چاہیے، کراچی کے مسائل کے حل کے لئے ان سے بہتر آدمی میری نظر میں تو نہیں ہے
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس وقت عمران خان پر چاہے جیسے حملے کئے جائیں، جس قدر غیر اخلاقی الزام لگیں، سکینڈل بنائے جائین، انٹرویوز کرائے اور کتابیں چھپوائی جائیں، ان کا زرہ برابر بھی اثر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ سب پلانٹڈ ہے، طے شدہ ہے، پروپیگنڈہ ہے،اسی لئے یہ بے اثر ہے۔
انصار عباسی صاحب کا پی ٹی وی ویڈیو کے حوالے سے اعتراض درست ہے، ان کے خلاف چلنے والی مہم غلط، ناجائز اور غیر ضروری ہے، اس کی کوئی تک نہیں۔ درحقیقت اس معاملے پر انصار عباسی صاحب کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاسی یا کسی بھی حوالے سے اختلاف ممکن ہے، مگروہ اس معاملے میں درست ہیں
ہاجرہ خان کی عمران خان کے خلاف کتاب کا وہی حال ہوگا جو ریحام خان کی فضول کتاب کا بنا۔ کتاب تو نہیں پڑھ سکا، مگر جو چند اقتباسات سامنے آئے ہیں، وہ نہایت مایوس کن ہیں۔ ایسے گھٹیاحملوں کے بعد حاجرہ خان کی بات پر کون یقین کریگا؟یہ لایعنی کوشش لگ رہی ۔ایک اور افسوسناک ناکام حملہ۔
سنٹرل پنجاب کے مختلف اضلاع میں مقامی صحافیوں،نمائندوں سے ڈسکشن کے بعد اندازہ ہوا ہے کہ ن لیگ اب واقعی جی ٹی روڈ کی پارٹی نہیں رہی۔الیکشن تھوڑے سے بھی فیئر ہوئے، پچیس تیس فیصد بھی تو ن لیگ کا صفایا ہونے جا رہا ہے۔ یہ گوجرانوالہ سے بھی چار سے تین سیٹیں ہار جائے گی۔حیران کن ۔
اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے کوئی سینئر بیوروکریٹ اپنی ساکھ، پنشن، واجبات اور سب کچھ داو پر لگا سکتا ہے؟
یہ الزامات کمشنر کا سب کچھ ختم کر سکتے ہیں، اسے کئی برسوں کے لئے جیل بھیج سکتے ہیں۔
کیا اتنا بڑا رسک کوئی اعلی افسر اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے لے سکتا ہے؟
نہیں ، پر گز نہیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی۔ کئی جیتی نشستیں ایم کیو ایم پاکستان کو دے دی گئیں۔
تحریک انصاف کی بھی جیتی ہوئی بعض سیٹیں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو دی گئیں۔
کراچی میں جماعت اسلامی کی اچھی کارکردگی حافظ نعیم کی دلیرانہ سیاست کے باعث ہوئی۔ حافظ نعیم کو
پاکستان کے نگران وزیراعظم کو مسلسل تیسری چوتھی سربراہ کانفرنس میں بہت پیچھے، بڑے افسوسناک انداز میں ڈی گریڈ کر کے جگہ دی گئی ۔ کیا یہ نگران وزیراعظم کے ساتھ روا رکھا گیا برا سلوک ہے یا خدانخواستہ پاکستان کی اہمیت دنیا میں اس قدر کم ہوگئی ہے؟ ویسے جو سلوک جناب کاکڑ کے ساتھ کیا جا
جیو نیوز پر لاہور کے حلقہ این سے 130 کی رپورٹ بتائی جا رہی ۔ خاتون رپورٹر نے پولنگ سٹیشن کے اندر سے دکھایا کہ صرف ایک پارٹی کا پولنگ ایجنٹ موجود ہے، دوسری کسی پارٹی کاپولنگ ایجنٹ نہیں۔
یہ حلقہ ہے این اے 130۔ یہاں پر میاں نواز شریف الیکشن لڑ رہے ہیں،مقابلے میں ہیں ڈاکٹر یاسمین
لاہور کی کم از کم آدھی نشستوں کے نتائج مشکوک ہیں۔ یہان پی ٹی آئی جیت رہی تھی۔ عون چودھری، عطا اللہ تارڑ، حمزہ شہباز، مبشر اقبال ہار گئے تھے، مریم نواز کی جیت پر بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں، نواز شریف تو خیر واضح شکست سے دوچار ہوچکے تھے۔ پنڈی ڈویژن میں بڑے پیمانے پر نتائج تبدیل ہوئے
پی ٹی آئی کی تنظیم تباہ ہوسکتی ہے، پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہے، مگر عمران خان کا جو ووٹ بینک ہے، وہ آسانی سے ختم نہین ہوسکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی نے ابھی تک عمران خان کی جگہ پر ہی نہیں کی۔ پاکستانی سیاست میں ایک بڑا خلا ہے جسے صرف عمران خان ہی پر کر سکتے ہیں،
کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ن لیگ اور شریف خاندان سے سوال پوچھے جائیں کہ آپ مڈل کلاس اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہیں، مذہبی ہونے کاامیج بناتے ہیں تو پھر ایسی بازاری حرکتوں اور ڈرٹی پالیٹیکس میں کیوں ملوث ہوتے ہیں؟
ن لیگ کو چھوٹی پارٹیوں کا سہارا کیوں لینا پڑ رہا، پہلے ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اب استحکام پاکستان پارٹی سے ۔ رانا ثنا اللہ تو بڑی رعونت سے کہتے تھے کہ ہم پنجاب میں کسی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کریں گے، اب کیا ہوگیا؟ کیا حلقوں کی حقیقی صورتحال کا پتہ چل گیا؟پی ٹی آئی سے اتنا خوف ؟
غریدہ فاروقی کا شمار ٹی وی جرنلزم کی بدتمیز ترین اینکرز میں ہوتا ہے، کئی پروڈیوسر ان کے رویے اور بدزبانی سے چھوڑ کر گئے ۔ مراد سعید کے خلاف ان کا پروگرام بڑی زیادتی ہے، اللہ انہیں ہدایت دے، جب ایسے طرزعمل کی مذمت کی جائے اور جواب میں تنقید ہو تو ٹرولنگ کا الزام لگاتے ہیں۔
اج لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک خاتون کو عربی الفاظ لکھے ڈیزائن کا لباس پہننے پر جس طرح ہراساں اور گھیراو کر کے خوفزدہ کیا گیا وہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ یہ غیرت اسلامی نہیں بلکہ بدترین جہالت اور جنون کا مظاہرہ تھا۔ تمام مذہبی طبقات کو اس کی غیر مشروط اور شدید مذمت کرنی چاہئیے۔
سندھ میں جی ڈی اے تحت ہونے والا احتجاج حیران کن ہے۔ اتنا بڑا اجتماع اندرون سندھ کے کسی غیر پیپلزپارٹی جلسہ میں بہت کم نظر آیا۔
یوں لگتا ہے جیسا عوام کا سمندر آمنڈ آیا ہے۔
بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے لئے الیکشن لڑنے والے امیدوار ہی ختم ہوگئے۔ آج فیصل آباد کے ایک سینئر صحافی کی تفصیلی رپورٹ دیکھی تو حیرت ہوئی کہ وہاں تمام نشستوں پر تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن لڑنے کے لئے امیدوار موجود ہیں، اچھے خاصے مضبوط اور تگڑے امیدوار بلکہ بعض
امریکی صحافیوں کو نہ ہماری پی ڈی ایم پر ترس آیا جو سائفر جھٹلا جھٹلا کر باولے ہو گئے،مولانا فضل الرحمن کی سفید ڈاڑھی کی لاج نہیں ائی، بلاول پر ترس نہیں ایا، جنرل باجوہ کا خیال بھی نہیں کیا اور کم بخت ماروں نے سائفر کااوریجنل متن چھاپ کر اٹک جیل کے قیدی عمران خان کو سرخرو کر دیا
ایاز امیر، طاہر صادق ، پرویز الہی اور اسلام آباد کے عامر مغل کی سیٹوں کے نتائج سے پتہ چل رہا کہ کسی بھی طرح سے اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو ہرانا مقصود ہے
یہ نتائج کون مانے گا؟
ایک واضح ٹرینڈ ہے جو ہر جگہ نظر آ رہا، اب اس میں اچانک ایک حلقے میں سب ریورس کیسے ہو سکتا ہے؟
ایسا نہیں
سوال یہ ہے کہ فارم گیارہ اور بارہ صرف کراچی میں تونہیں بھرے گئے، حیدرااباد، ٹھٹھہ اور اندرون سندھ کے ہر شہر میں رات سے نتائج سامنے ا گئے۔ کراچی میں کیا یہ فارم خون سے لکھے جا رہے ہیں اور تازہ خون نہ ملنے سے دیر ہو رہی ہے؟ پوری قوم کو بے وقوف سمجھا ہے کیا؟
خط لکھنے والے چھ ججوں میں سے پانچ جج صاحبان تو شوکت صدیقی صاحب کی برطرفی کے موقعہ پر اسلام اباد ہائی کورٹ کے جج ہی نہیں تھے۔ ان کو یہ کہنا کہ ضمیر پانچ سال ب��د اج جاگا ہے، یہ تو بے معنی بات ہے۔
خط پر بات کریں۔ ایشو وہی ہے۔ ججوں کی کردارکشی سے کچھ نہیں ملے گا۔ ناکامی ہو گی۔
کراچی میں حافظ نعیم الرحمن کی جیت بدلی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن غالبا یہ چاہتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنا مئیر اکیلے نہ لا سکے اور اسے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے ۔ افسوسناک۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفا سسٹم کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ سپریم کورٹ کا سینئر جج جو صرف دس ماہ بعد چیف جسٹس آف پاکستان بننے والا تھا، آخر ایسا کیا ہوا کہ وہ اچانک استعفا دینے پر مجبور ہوگیا؟بہت ہی افسوسناک اور پریشان واقعہ۔
علی حیدر گیلانی کی ویڈیو کے بعد جماعت اسلامی کا غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ درست لگا۔ آج خوشی ہوئی کہ جماعت اس گند کا حصہ نہیں بنی اور یوسف رضا گیلانی کی جیت کا تمام تر سہرہ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کی ڈرٹی پالیٹکس کے سر گیا۔
@journalist11
@ImranKhanPTI
معاف کیجئے گا ہمارا ربع صدی صحافت ہی میں گزری ہے، آپ کا سوال نہیں بلکہ چارج شیٹ تھی۔ سوال ایسے نہیں پوچھا جاتا نہ یہ سوال تھا اور نہ ہی صحافت۔ یہ پولیٹیکل ایکٹوازم تھا۔ صحافت کریں، کسی جماعت کے سیاسی کارکن نہ بنیں
میاں نواز شریف کے لاڈلے بلکہ انوکھے لاڈلے ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں تھی، ایسے میں ن لیگ کے وکلا کو چاہیے تھا کہ وہ کیس اپنی فطری رفتار سے چلنے دیتے ، جس برق رفتاری سے یہ سب ریلیف میاں صاحب کو دئیے جا رہے ہیں، اس سے قانونی حلقے تو کیا عوام الناس بھی ہکے بکے ہیں ۔ حد ہے بھئی ۔
آج کے فیصلے کے بعد مجھے تو پی ٹی آئی کا ووٹر دلبرداشتہ ہونے کے بجائے الٹا زیادہ چارج ، باحوصلہ اور پراعتماد لگا۔ ان میں یہ جذبہ پیدا ہوا ہے کہ تمام تر غصہ الیکشن ڈے پر باہر آ کر ووٹ ڈال کر نکالنا ہے۔
یہ فیصلہ تحریک انصاف کو دبانے کے لئے کیا گیا تھا مگر یہ الٹ ہوتا نظر آ رہا
مجھے خطرہ ہے کہ عمران خان کوئی بڑا بلنڈر کر کے پورے سسٹم کو نہ ہلا کر رکھ دے۔ افسوس جسے ہم لیڈر سمجھتے تھے ،آخری تجزیے میں پرلے درجے کا خودغرض ، عقل وفہم سے عاری اور خودپسندی،تکبرو نرگسیت کا پہاڑ نکلا۔ شرمناک
تحریک انصاف نے نئی تاریخ رقم کر دی ۔
دراصل یہ عوام کی تاریخ ساز کامیابی ہے۔ تمام زمینی قوتیں تحریک انصاف کے خلاف تھیں، تمام سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن، پولیس، انتظامیہ، نگران حکومت، عدالت عظمیٰ، اسٹیبلشمنٹ ۔ ہر چیز خلاف تھی، مگر عوام دیوانہ وار باہر نکلی اور پورا سکرپٹ تبدیل
یہ تو بہرحال طے ہو گیا،ثابت ہو گیا کہ تحریک انصاف پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے ۔ جو جسی بھی فئیر الیکشن میں ارام سے دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتے ہے۔
دیگر تمام جماعتیں مل کر بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ یہ حقیقی معنوں میں عوامی سونامی ہے ۔
یہ بھی واضح ہو گیا کہ پنجاب
بات گو تلخ سہی، مگر حقیقت یہی ہے کہ آڈیالہ جیل میں قید عمران خان نے اور اس کی اپیل پر عوام نے اپنے مینڈیٹ سے نواز شریف صاحب کو چوتھی بار وزیراعظم نہیں بننے دیا۔ سکرپٹ بڑا زوردار لکھا گیا تھا، مگر کچھ چیزیں قدرت کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، عزت بھی ذلت بھی۔ بائو جی کے حصے میں اس عمر میں
’’آصف زرداری مفاہمت کا بادشاہ نہیں ہے بلکہ وہ مفادات کا بادشاہ ہے۔ جہاں سے مفاد ملے ، لے لیتا ہے۔ ‘‘
مولانا فضل الرحمن کی نسیم زہرہ سے گفتگو ۔
مولانا تو لگتا ہے کہ ایک لنکا نہیں بلکہ سب کچھ ڈھانے پر تلے ہیں۔
ن لیگیوں اور حکومت پر حیرت ہے جو انصافین پر مسلح ہونے اور پرتشدد احتجاج کا جھوٹا الزام لگا رہے ہیں، پہلی بار دیکھا مظاہرین ہاتھ میں پانی کی بوتل پکڑے نکلے ہیں، پولیس کی لاٹھیاں کھار ہے، شیلنگ سہہ رہے ہیں، ان انصافین مظاہرین کے ہاتھ میں ایک سوٹی تک نہیں۔ کون سا اسلحہ، کیسا اسلحہ؟
جماعت اسلامی کی دونوں سیٹیں چھین لی گئیں۔ کے پی اسمبلی میں ان کی غالبا کوئی سیٹ نہیں رہی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ "غیر جانبدار" الیکشن کمیشن کب مجلس وحدت مسلمین کی سیٹ چھین کر انہیں بھی سزا دیتے ہیں۔
انتظار فرمائیے۔
انصار عباسی آپ سے بعض امور میں اختلاف ہے، مگر یہاں پر آپ کا سٹانس بالکل درست ہے، آپ کو سپورٹ کرنا چاہیے، آپ کو دبائو میں آنے کی زرا بھی ضرورت نہیں ، رب کریم آپ کو اس کا اجر دے ، آمین
If the entire world turns against me for opposing anything that is in-Islamic in our society, It will not bother me even for a moment. Instead I am thankful to my Allah for enabling me to do this and take pride on it Alhamdulillah. May Allah give Hidaya to all of us. Ameen
کیسا ظالمانہ اور شرمناک رویہ ہے اسسٹنٹ کمشنر کا۔ ۔ سندھ میں بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کی بدترین گورننس میں بیوروکریسی بھی تباہ ہوگئی ہے۔ شرم آنی چاہیے ایسی نوکر شاہی کو ۔
جتنے دو نمبر، جعلی اور گھیٹا سروےمیڈیا ہائوسز پر مسلط کر کے چھپوائے اور نشر کرائے گئے ۔ انجام سب کے سامنے ہے۔ عوام نے بتا دیا کہ جعلی سروے سے الیکشن نہیں جیتے جاتے۔
کیا یہ سروے کرانے والے ادارے خاص کر گیلپ پاکستان اپنے غیر معیاری، مشکوک، کمزور سروے پرقوم سے معافی مانگیں گے؟
میری رائے میں جماعت اسلامی کا یہ اعتراض درست اور معقول ہے کہ اگر اعتماد کرنا ہی ہے تو مکمل لیا جائے۔ تحریک انصاف کو اگر کسی پارٹی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا ہی ہے تو کے پی اور مرکز دونوں میں بیک وقت ایسا کرنے میں کیاقباحت تھی؟
کیا تحریک انصاف کے چوراسی ارکان صوبائی اسمبلی
کل جو بندر بانٹ کی گئی، ریوڑیوں کی طرح سیٹیں بانٹی گئیں، اس سے ایم کیو ایم پریشان ہوگئی ۔ سنا ہے کہ مصطفیٰ کمال نے کہا، یار ذرا خیال رکھنا کراچی کے فوراً بعد بلوچستان کی سیٹیں شروع ہوجاتی ہیں، وہ نہ ہمارے کھاتے میں ڈال دینا، وہ ہم نے نہیں لینی ہیں۔
مصطفیٰ کمال نے زیادتی کی،
طالبان کی فتح کسی گروہ کی نہیں ایک نظریے کی فتح ہے۔
سلام ان کو جو ثابت قدم رہے۔
سلام ہمارے ان لکھنے والوں کو جنہوں نے ان بے سروساماں لوگوں کی ہمیشہ حمایت کی۔
اوریا مقبول جان، ارشاد احمد عارف، انصار عباسی اور ان جیسے دیگر جری صحافیوں کو سلام۔ یہ ثابت قدم ۔ ان سب کومبارک ہو
عمران خان کو روکنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔اتنی بڑی حمایت ,مقبول اینٹی امریکہ بیانیہ, اداروں پر تنقید نہ کرنے کی عقلمندی، فوج کی غیر مشروط ستائش، ٹکراو سے گریز کا عہد اور صرف الیکشن کی ڈیمانڈ۔
کون اس ایجنڈے کو رد کرسکتا ہے؟
ہم چاہیں یا نہ چاہیں ملک نئے الیکشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے بدترین الیکشن کرانے کا سہرا چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو جاتا ہے۔ یہ پاکستانی تاریخ کے سب سے متنازع، بدنام اور رسوا چیف الیکشن کمشنر کے طور پر رخصت ہوں گے ۔ افسوسناک۔
جماعت اسلامی کی کسی پالیسی یا سوچ سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حافظ نعیم سے بہتر امیدوار موجود نہیں۔ انہیں جتوانا چاہیے تاکہ کراچی کے مسائل حل ہوسکیں
کراچی والو !
تم ایک دن کی مشقت برداشت کر کے ووٹ ڈالنے نکلو !
اگلے چار سال تک ہم تمہیں راحت پہنچائیں گے ۔ انشاء اللہ
حافظ نعیم الرحمٰن امیر جماعت اسلامی کراچی
#KarachiNeedsHafizNaeem
آج ایک کھانے میں مخدوم جاوید ہاشمی سے ملاقات ہوئی، ان کا عزم جوان اور حوصلہ بلند ہے، وہ ملتان سے آزاد قومی اسبملی کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ پر سخت تنقید کی ہے اور تحریک انصاف کے بیانیہ کو سپورٹ کیا۔ ان سے میں نے پوچھا کہ کیا
بلاول بھٹو کی تقریر گھنٹہ بھر دکھائی گئی، جیسے ہی اسد قیصر نے تقریر شروع کی، دو تین منٹ بعد تقریر کٹ کر دی گئی۔ مگر کیوں؟ کیا پی ٹی وی نیشنل ٹی وی ہے یا حکمران ٹولے کا غلام؟ یہ کیسی جمہوریت پے؟شرمناک
سراج الحق پاکستان کے تیسرے مقبول ترین لیڈر
گیلپ کے تازہ ترین سروے کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق پاکستان اور پنجاب کی سطح پر تیسرے مقبول ترین لیڈر ہیں
لطیف کھوسہ کی جیت پر بعض ن لیگی احباب ہو کر کھسیانے ہو کر طنز کر رہے ہیں کہ یہ تو فلاں کا وکیل رہا ہے، فلاں مجرم کا بھی کیس لڑا وغیرہ۔
بات یہ ہے کہ کھوسہ صاحب آج تاریخ کی درست جگہ پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے جبر کے خلاف مضبوطی اور جرات سے آواز اٹھائی ہے ۔ ان کے حلقے کے
پچھلے ایک سال سے بہت کچھ نئے سرے سے دیکھنے، سوچنے، سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آٹھ دس ماہ پہلے اس حوالے سے ایک پوسٹ بھی کی تھی کہ اب پرانی عینک اتر گئی ہے اور نئی عینک سے چیزوں کو ان کی اصل حقیقت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا نتائج اخذ کئے،
کمشنر پنڈی ڈویزن کے بیان کے حوالے سے چار اہم نکات بہت اہم ہیں۔ پہلے انہیں سمجھ لیں۔ :
1:کمشنر لیاقت چٹھہ ایک نیک نام اور بہت ایکٹو بیورو کریٹ رہے ہیں۔
یہ سرگودھا کے ڈی سی تھے تو ہر ہفتہ ایک تحصیل کا وزٹ کرتے، سکولوں، ہسپتالوں کی کارکردگی، حاضری، صفائی وغیرہ پر گہری نظر رکھتے
آج کا جنگ اخبار افسوسناک اینگلنگ کا بدترین نمونہ ہے۔
جنگ لاہور میرے سامنے ہے، آج کی شہہ سرخی یعنی لیڈ اور پھر فرنٹ پر لگائی گئی تصویریں، سپر لیڈ بھی اور خاص کر بیک پیج پر لگائی گئی کئی تصاویر کا پھٹہ۔
ایک سے بڑھ کر ایک اینگلنگ۔
زرد صحافت کی پرفیکٹ مثال آج روزنامہ جنگ نے
پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان اسمبلیںکو ہرگز ن لیگ یا پی پی یا جے یو آئی وغیرہ میں نہیں جانا چاہئیے،
کیونکہ انہیں ووٹروں نے انہی جماعتوں کے خلاف مینڈیٹ دیا ہے۔
اگر یہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ ارکان اسمبلی کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو یہ پرلے درجے کی بے ضمیری، بے
گوجرانوالہ کے پانچ حلقوں میں سے تین پر پی ٹی آئی کو سبقت حاصل ہے، دو سیٹیں یہ جیت رہی ہے، ن لیگ کی سب سے مضبوط پوزیشن خرم دستگیر کے حلقے میں ہے یا کسی حد تک اظہر قیوم ناہرا کوسبقت ہے جبکہ عثمان ابراہیم کا صاحبزادہ اور محمود بشیر ورک سیٹ ہارنے جار ہےہیں، کوئی کرشمہ ہی بچا پائے،
الیکشن کمشنر سندھ کے مطابق بلدیاتی الیکشن کا عمل پیچیدہ ہوتا ہے اس لئے تاخیر ہوئی۔سوال یہ کہ حیدرآباداور سندھ کے دیگر شہروں میں یہ عمل آسان تھا؟ کراچی میں کیوں پیچیدہ ہوا؟ ہاں ہر یونین کونسل کا نتیجہ بدلا جائے تو یقیناً پیچیدگی پیدا ہوگی، تاخیر بھی ہوگی۔ بات سمجھ آتی ہے ٹھاکر۔
اینکر ثنابچہ نے ٹوئٹ کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں نئیم توڑے گئے، آئین اور اپوزیشن کا اعتماد توڑا گیا وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت میں ان جیسے انتہائی یک طرفہ موقف رکھنے والے متعصب اینکرز کے تجزیوں کا بھرم بری طرح ٹوٹا ہے۔ ثابت ہوا کہ غریدہ فاروقی، ثنا بچہ اور اس قبیل کے دیگر اینکر غلط ہیں
عمران خان کا ٹرائل اڈیالہ جیل کرانے کی سب سے بڑی وجہ خان کی مقبولیت کا خوف ہے۔ مخالفوں کو اندیشہ ہے کہ عمران خان نے کیمروں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دیا تو ا سکی مقبولیت یکایک آسماں کو چھونے لگے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ خان کو جیل میں بند رکھ کر بھی غیر مقبول نہیں بنا سکے۔ کچھ بھی نہیں
آخر کیا وجہ ہے کہ جہاں پیپلز پارٹی اسانی سے جیت گئی، وہاں نتائج فوری ا گئے جیسے لیاری سے۔ باقی جگہوں پر تاخیر کیوں؟ سوال یہ ہے کہ ٹرن آوٹ اتنا کم رہا تو چند سوووٹوں کو دوبارہ گننے میں بھی کوئی دیر نہیں لگنی چاہئیے تھی۔
ایسی تمام اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے جو اپنی پروڈکٹ کو بیچنے کے لیے ایسے اشتہارات بناتے اور اُنہیں TV چینل پر چلواتے ہیں جو ہماری اقدار کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں آپ سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔
جن لوگوں کو قومی اسمبلی کا اجلاس فوری بلانے کی ہڑک اٹھی ہے، ان سے کوئی پوچھے کہ خیبر پختون خوا اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا جا رہا؟
پنجاب اور سندھ کے وزراعلیٰ نے حلف بھی اٹھا لیا۔ پختون خوا اسمبلی کا اجلاس تک نہیں بلایا گیا۔
تین چار دن پہلے جیونیوز نے دلچسپ خبر دی کہ گورنر
عرفان صدیقی صاحب جس طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خلاف حملہ آور ہوئےہیں وہ افسوسناک ہے۔ انہیں ان ججز کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے نہ کہ عدلیہ پر ناجائز دباو ڈالنے والوں کا دست بازو بنیں۔ صدیقی صاحب لگتا ہے ن لیگ کی نمک کی کان میں جا کر خود سر تاپا نمک بن گئے۔ افسوسناک
اڈیالہ جیل میں چاہے جتنی محدود تعداد میں صحافیوں کو جانے دیا گیا، بہرحال اس سے عمران خان کو ان سے بات کرنے کا موقعہ ملا اورکئی ماہ بعد پہلی بار وکلا کے بجائے براہ راست اپنی بات کہہ پائے۔ عمران خان کا عزم مضبوط نظر آ رہا، وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی بھی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
بلاول بھٹو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومتی پارٹنر اور ساتھ اپوزیشن کا لیڈر بننے کی کوشش بھی۔ یہ فیک کوشش ناکام ہی ہو گی اور آج جو کچھ اسمبلی میں ہوا اس سے واضح ہو گیا کہ بلاول کو ایک سائیڈ چننا ہو گی۔ حکومتی کیمپ یا اپوزیشن۔ دوغلا پن نہیں چل سکتا
جسٹس اعجاز الاحسن نے وہی طریقہ اپنایا جو جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا تھا، یعنی خط لکھنے کا۔ جسٹس اعجاز کے خطوط اہم اور سنگین مسئلے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگر تین رکنی کمیٹی میں طے شدہ فیصلوں کی خلاف ورزی ہوئ�� ہے تو اس غلطی کو درست کرنا چاہیے ۔ بھٹو کیس اور جسٹس مظاہر نقوی کے
عمران خان کا بت بنایا گیا، ہم سب نے اسے سجایا، اس پر پھول چڑھائے اور الیکشن جتوایا۔ آج اسی بت کو بری طرح ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ افسوسناک۔ جسے ہم لیڈر سمجھتے تھے، وہ اتنا ہلکا، سطحی اور کمزور نکلا۔ گریس فلی جانے کے بجائےدھکے دے کر باہر پھینکے جانے کا متنظر ہے، شرمناک
حسین حقانی کی بچکانہ باتوں سے کان پک گئے ہیں۔ بات صاف ہے امریکیوں کا پیغام اسٹیبلشمنٹ کے لئے تھا، عدم اعتماد انہوں نے کامیاب بنانا تھی،اراکین پارلیمنٹ نے نہیں
امریکی سفارت کار نے پاکستانی سفیر کو کہا کہ پاکستان امریکہ تعلقات وزیر اعظم کی تبدیلی کے بعد ہی بہتر ہوں گے۔ اب یہ سمجھائیں کہ اس گفتگو یا اس کے سائفر پیغام سے 174 اراکین اسمبلی (جنھیں اس گفتگو یا سائفر کا علم تک نہ تھا) مہاتمہ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے پر کیسے تیار ہو گئے؟
کراچی میں تو اس بار حد ہی ہو گئی، شام پانچ بجے پولنگ ختم ہوئی اور اگلے دن گیارہ بجے تو بیس تیس فیصد نتائج ہی اناونس کئے گیے۔آخرکیوں؟ نتائج کیوں بدلے جا رہے ہیں؟ کیا پیپلز پارٹی کو جتوانامقصود ہے؟ افسوسناک، شرمناک
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ فاضل جسٹس صاحبان کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط اتنا بڑا دھماکہ ہے جو کہ اس پورے سسٹم کو اڑا سکتا ہے۔
ان جج صاحبان میں جسٹس محسن کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن شامل ہیں۔ یاد رہے کہ
میرا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ روا رکھے گئے نامناسب سلوک کی غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے، اگر، مگر ، چونکہ چناچہ کے بغیر۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ماضی میں اگر کسی کے ساتھ ایسا ہوا تو وہ بھی غلط تھا، ایک غلط کسی دوسرے غلط کی دلیل نہیں بن سکتا۔ ہمیں اب اس پر یکسو ہنا چاہیے
بلاول کا مرکز میں ن لیگ کو سپورٹ کرنا اور وزارتین نہ لینا مگر اپنے اباجی کو صدر مملکت بنوانا، قومی اسمبلی کا سپیکر یا سینٹ کی چئیرمینی لے لینا تو پھر اسی مشہور محاورے کے مطابق ہو گا کہ
میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو۔
آج قومی اسمبلی میں محمود خان اچکزئی کی شاندار تقریر نے ہر ایک کو دنگ کر دیا۔ حالات کا ہیر پھر دیکھیں کہ محمود خان اچکزئی کی تقریر ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر ہوئی، وہ سخت ترین جملے جن کا دسواں حصہ بھی پہلے کبھی کسی بڑے چینل پر نشر نہیں ہوسکتا تھا، وہ آج نشر ہوئیں۔ یہ جمہوریت کا
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ خان صاحب ہر تقریر میں بھارت کی تعریفیں کرتے ہیں، کیوں؟ کسی کو چڑانے کے لئے ایسا کرتے ہیں؟ اگر آزاد خارجہ پالیسی کی تعریف کرنی ہے تو ترکی، ملایشیا کی بھی کی جا سکتی ہے۔ آخر بھارت ہی کیوں؟ یوں لگتا ہے جیسے وہ پوری پاکستانی قوم کو چڑا رہے ہوں
مجھے تحریک انصاف کا ہیش ٹیگ اور سلوگن پسند آیا ہے۔ ظلم کا جواب ووٹ سے ۔ یہ جمہوری اور سیاسی بات ہے۔ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ پرامن جمہوری مزاحمت یہی ہے۔ نو مئی کو احتجاج کے لئے نکلنے کا شدیدنقصان ہوا۔ جب آپ سڑکون پر نہیں ہوں گے تو شرپسند آپ کی ��فوں میں شامل بھی نہیں ہوسکتے