پیر انِ پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
تو اپنے درہم اور دینار پر بھروسا نہ کر کیونکہ یہ تجھے عاجز اور ضعیف بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسا (توکل) کر یہ تجھے قوی بنادے گا اور تیری مدد کر ے گا۔ تجھ پر لطف و کرم کی بارش برسائے گا اور جہاں سے تیرا گمان بھی
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
علم اور عقل عشقِ الٰہی کی راہ کی بڑی کمزوری ہے۔ عشقِ الٰہی میں وہ لطف وسرور ہے کہ اگر کسی جید عالم کو اس کا ذرا سا مزہ مل جائے تو وہ تمام علمیت بھول کر عشقِ الٰہی میں گم ہو جائے۔
آپؒ ایک پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:
عشق سمندر چڑھ
ووٹ امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال اسلامی فریضہ ہے۔اس اسلامی ذمہ داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلوپیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ملک پاکستان میں حالات دن بدن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انتخابات میں ووٹ استعمال کرتے وقت اس کو خالص دنیاوی معاملہ سمجھا
ہر وہ چیز جو قلب (باطن) کو اللہ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کر لے دنیا ہے۔
ترکِ دنیا سے مراد ترکِ ہوسِ دنیا ہے یعنی دنیا سے باطنی لاتعلقی کا نام ترکِ دنیا ہے اور اس کے بغیر معرفتِ الٰہی حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔
دنیا
”ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے لڑکے! اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو تو وہ تمہارے حقوق کی حفاظت کرے گا اور تم اسے سامنے پاؤ گے اور جو کچھ مانگنا ہو اللہ سے مانگو اور جب مدد درکار ہو تو اُس سے مدد لو اور جان لو کہ اگر تمام دنیا اس
ترک دنیا
سیدّناغوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
جس دل میں دنیا کی محبت ہے وہ ﷲ سے محجوب ہے اور جس دل میں آخرت کی محبت ہے وہ ﷲ تعالیٰ کے قرب سے محجوب ہے۔ جوں جوں تیرے دل میں دنیا کی محبت بڑھتی جائے گی توں توں تیرے دِل میں آخرت
ﷲ پر بھروسا ’’توکل‘‘ کہلاتا ہے۔ ﷲ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ ﷲ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔ توکل کو فقر کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
قرآنِ مجید میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے:
اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذّتِ کردار، نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جُرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں
ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سِکھاتی نہیں مومن کو
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرو جیسے توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں پرندوں کی طرح روزی دی جائے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘ (ابن ِ ماجہ 307، ترمذی 2344)
حضرت ابودرداءؓسے
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ارْجِعِیْ ٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ج۔ (سورۃ الفجر27-28)
ترجمہ: اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ اپنے ربّ کی طرف، اس حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہوگیا اور تو اس سے راضی ہوگیا۔
قرآنِ مجید میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ دیدارِ حق تعالیٰ
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ﷲ علیہ دنیا اور طالبِ دنیا کے بارے میں اپنی تصنیف عین الفقر میں فرماتے ہیں:
طالبِ دنیا دو حکمت سے خالی نہیں ہوتا، یا وہ منافق ہو گا یا ریاکار۔ دنیا شیطان ہے اور طالبِ دنیا شیاطین ہیں۔ دنیا فتنہ و فساد ہے اور طالبِ دنیا فتنہ انگیر ہیں، دنیا نفاق ہے اور
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
نزولِ تقدیر کے وقت حق تعالیٰ پر اعتراض کرنا ( یعنی اس کی رضا کے خلاف دل میں خیال لانا) دین، توحید ، توکل اور اخلاص کی موت ہے۔ ایمان والا قلب کیا، کیوں، کیسے کو نہیں جانتا، ا س کا کام تو ’’ہاں‘‘
عشق مجازی
شاہ شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ عشقِ مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں:
عشق معراج است سوئے بام سلطانِ ازل
از رخِ عاشق فرو خواں قصۂ معراج را
ترجمہ: عشقِ حقیقی معراج ہے اور عشق ہی بارگاہِ ایزدی میں باریابی دلاتا ہے۔ اگر معراج کی داستانِ حقیقی پڑھنی ہے تو کسی عاشق صادق (مرشد
حضرت لقمان انتہائی سیاہ فام اور کم رو تھے۔ ایک دن آپ بغداد کے بازار سے گزر رہے تھے کہ مفرور غلام سمجھ کر پکڑ لیے گئے اور مٹی کھودنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ آپ ایک سال تک مفت میں مٹی کھودنے کی بیگار کرتے رہے۔ اتفاقاً اس شخص کا غلام جو مفرور تھا، واپس آ گیا۔ وہ حضرت لقمان سے واقف
معالج کیا کرے
عجم کے کسی بادشاہ نے ایک اعلیٰ پائے کا حکیم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ وہ حکیم کئی سال مدینہ شریف میں رہا۔ کوئی ایک شخص بھی اس کے پاس علاج کے لیے نہ آیا۔ ایک دن وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں اس شکایت کے ساتھ حاضر
ہر معاملے میں اللہ پر توکل کرنا ہی ایمان کی نشانی ہے خصوصاً رزق کے معاملے میں۔ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ رزق ہر جگہ عام ہے، جو جہاں ہو اس کے حصے کا رزق اُسے وہیں پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ ایک مقام سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے توکل
راجہ پرتھوی کے مسلمان ہونے کا واقعہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ ہے۔
راجہ پرتھوی اجمیر کا حاکم تھا اور اس کا نام پرتھوی راج چوہان تھا۔ اس نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بہت سختی کی اور ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مقابلے میں بہت سی چالیں چلائیں۔ اس نے
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ اور اکبر بادشاہ۔
حضرت مجدد الف ثانی اور اکبر بادشاہ کا قصہ ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ ہے۔ اکبر بادشاہ نے اپنا ایک نیا مذہب شروع کیا تھا جسے دینِ الہی کہتے تھے۔ اس میں وہ اسلام اور دیگر مذاہب کے عقائد اور رسومات کو ملاتا تھا۔ اس نے اپنے خلاف مسلمانوں
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رُسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نُورِ حیات، عشق سے نارِ حیات
عاشق کی انتہا مرتبۂ معشوق (محبوب) ہے۔
عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتاہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ’نور الہدیٰ کلاں‘ میں فرماتے ہیں:
مرتبۂ فقر مرتبۂ معشوق ہے۔ معشوق جو بھی چاہتا ہے عاشق اسے عطا کر دیتا ہے
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَ الْبُغْضُ فِی اللّٰہِ (ابوداؤد4599)
ترجمہ: کسی سے محبت کرو تو اللہ کے لیے کرو اور کسی سے بغض رکھو تو بھی اللہ کے لیے رکھو۔
جو آدمی اللہ کے دوستوں کو ستاتا ہے بے شک وہ دونوں جہان میں خراب ہوتا ہے۔ بعض آدمی اہل
دلیلاں چھوڑ وجودوں، ہو ہشیار فقیرا ھوُ
بنھ توکل پنچھی اُڈدے، پلے خرچ نہ زیرا ھوُ
روز روزی اُڈ کھان ہمیشہ، نہیں کردے نال ذخیرا ھوُ
مولا خرچ پہنچاوے باھوؒ، جو پتھر وِچ کیڑا ھوُ
اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ طالبِ مولیٰ سے مخاطب ہیں اور فرماتے ہیں
جب ہم علم اور عقل کی حدود پار کرکے عشق کی حدود میں داخل ہوتے ہیں توعشق تمام حدود پار کرواکے ہمیں ’’لامکان‘‘ تک پہنچا دیتا ہے۔
مولانا رومؒ کا قول ہے ’’ ہم عشقِ ﷲ کو علم وعقل سے بیان نہیں کرسکتے۔‘‘
آپؒ فرماتے ہیں:
عشق آمد عقل خود آوارہ شد
شمس آمد شمع خود بیچارہ شد
ترجمہ: عشق آ
شیر بہت بیمار ہے
ایک شیر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔" فکر نہ کرو، میں اس کا بندوبست کردوں گا۔"
یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید
متوکل طالبِ مولیٰ پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔ وہ ہر کام میں اللہ پر توکل اور بھروسا کرتا ہے جس سے اللہ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے۔
متوکل طالب روزی معاش کی فکر نہیں کرتا۔ عام لوگوں کا رزق کوشش اور جدوجہد کے نتیجے میں ملتا ہے لیکن خواص کا رزق اللہ تعالیٰ مہیا کرتا ہے۔
حضرت سخی سلطان
جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا
کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری
بعد از مرگ واویلا
ریچھ نے ایک بکرا شکار کیا اور کھانے کے لیے بیٹھا۔ اچانک ادھر سے ایک بھوکا شیر بھی آ نکلا اور آتے ہی ریچھ پر حملہ کر دیا۔ ریچھ نے اپنے ہاتھ سے شکار نکلتے دیکھا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے دل میں کہا کہ ایسے مفت خورے شیر سے کیا ڈرنا، اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو۔
ظلم کرنے کی جو ظالم کو اجازت ہو گی
جان لوگوں کی نہ ہرگز بھی سلامت ہو گی
وقت بدلے گا کبھی ہم کو یقیں ہے اس کا
جیسی کرتے ہو تمہاری بھی مدارت ہو گی
بات کرنے پہ لگاؤ گے اگر پابندی
ہر طرف دیس کے شہروں میں بغاوت ہو گی
ظلم اتنا ہی کرو جتنا ہو سہنا ممکن
ہاتھ ہم نے جو اٹھایا تو شکایت
دنیا حاصل کرنا کوئی برائی نہیں لیکن جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے تو پھر سراسر خسارہ ہی ہے۔
مخلوق خدا پر رحم کرنے سے دنیا اور آخرت میں سرفرازی عطا ہوتی ہے۔
پھول بادل کے گرجنے سے نہیں بادل کے برسنے سے اُگتے ہیں لہذا اپنی آواز کی بجائے اپنے دلائل کو ہمیشہ بلند کیجئے ـ
اگر
ایک گدھے نے کہیں سے شیر کی کھال حاصل کرکے اپنے جسم پر اوڑھ لی۔ اب وہ جنگل میں جس طرح جاتا سبھی جانور اس کو دیکھ کر بھاگتے۔ گدھا بڑا خوش تھا کہ جنگل کے جانور اسے شیر سمجھتے ہیں اور ڈرتے ہیں۔
اسی غرور میں گدھا ایک دن جنگل میں گھوم پھر کر جانوروں پر اپنی دہشت طاری کر رہا تھا کہ
کسی بزرگ سے سوال کیا گیا۔" تصوف کی حقیقت کیا ہے؟"
بزرگ نے جواب دیا۔" داناؤں کا ایسا گروہ جس کا دل مطمئن اور صورت پراگندہ ہوتی ہے۔ جبکہ آج کا انسان وہ مخلوق ہے جس کا دل پراگندہ اور ظاہر مطمئن ہے۔"
اطمینان قلب ایک ایسی نعمت ہے جو بہت کم حاصل ہوتی ہے۔ لاکھ خزانوں کا مالک ہو کر بھی
توشہ خانہ سے گاڑیاں لینا غیر قانونی ہے گاڑیوں کے علاؤہ باقی ہر چیز آدھی قمیت پر حاصل کر سکتے ہیں.جس نے آدھی قیمت پر قانون کے مطابق گھڑی خریدیں اس کو 14 سال کی سزا اور جس نے توشہ خان میں لوٹ مار مچا کر رکھی ہر چیز مفت میں اٹھا کر لے گیا اس کو وزیراعظم بنوانے کی تیاریاں ہورہی ہیں.
کچھ لوگوں کا خیال تھا عمران خان ایک گھنٹہ بھی جیل نہیں گزار سکتا لیکین عمران خان نے سب کو غلط ثابت کیا۔ انہوں نے عمران خان کو توڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکین عمران خان کو توڑ نہیں سکے اور جب عمران خان نہیں ٹوٹ سکتا تو اس وجہ سے عمران خان کا سپورٹر اور ووٹر بھی نہیں ٹوٹ
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا
تو بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے
اس آیت سے معلوم ہو اکہ کسی مشکل ،مصیبت یا دشواری کے ا ٓجانے کی وجہ سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ سے مشکل اور مصیبت دور ہو جانے اور دشواری آسان ہو جانے کی امید رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہئے،اللّٰہ تعالیٰ
یہ نوجوانوں کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے لیکین اب تو بزرگ بھی ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں
خالات بتا رہے ہیں کپتان بہت جلد واپس آئے گا انشاءاللہ
#ووٹ_ڈالو_خان_نکالو
ووٹ اس کا جس نے اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا میں اسلام کا مقدمہ لڑا۔ووٹ اس کا جس نے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد منظور کروائی۔ووٹ اس کا جس نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا۔
#Elections2024
شاہ محمود بھی ڈٹ گیا کپتان کے ساتھ ❤️
شاہ صاحب کی بھی عظمت کو سلام
شاہ محمود قریشی کو کپتان سے وفاداری اور اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے کی سزا دی گئی ہے
#عمران_خان_پر_ظلم_نامنظور
سفارش کے بارے میں قرآن کریم کا یہ ارشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے : ’’مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْہَا‘‘۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈیرا
وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا
ان کے انداز کرم ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ دل کا
نہ سنا اس نے توجہ سے فسانا دل کا
زندگی گزری مگر درد نہ جانا دل کا
کچھ نئی بات نہیں حسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا
وہ محبت کی شروعات وہ بے تھاہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مجھ پر شبِِ جمعہ اور روزِ جمعہ ایک سو مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھے اللہ تعالیٰ اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور 30 دُنیا کی۔ (شعب الایمان،ج3،ص111، حدیث: 3035)
#جمعة_مباركة
#Jummah
#JummahMubarak
مشکلات کا سامنا کرنا کسی بھی شخص کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ یہ ایک دشوار مرحلہ ہوتا ہے جس سے ہر شخص کو گزرنا پڑتا ہے۔ البتہ، اگر آپ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو مستقل اور محکم رکھیں، تو آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا آسان ہو جائے گا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ انقلاب کے دوران
دنیا حاصل کرنا کوئی برائی نہیں لیکن جب دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے تو پھر سراسر خسارہ ہی ہے۔ جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے اس علم سے جہل بہتر ہے۔ جس شخص کا خدا خود نگہبان ہو اس کا تحفظ مرغ و ماہی بھی کرتے ہیں۔ مخلوق خدا پر رحم کرنے سے دنیا اور آخرت میں سرفرازی عطا ہوتی ہے۔
مولانا
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا
پکڑا ہی گیا ہوں تو مجھے دار پہ کھینچو
سچا ہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
کیوں بخش دیا مجھ سے گنہ گار کو مولا
منصف تو کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا
دعووں کی ترازو میں تو عظمت نہیں تلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا
فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا
چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے
اپنی ہی
کوئی شخص نیند کے خمار میں مسجد میں آگیا اور حجرے میں گھس کر روتے ہوئے خدا سے دعا کرنے لگا۔" اللہ مجھے جنت میں جگہ دے۔"
موذن کو اس کی بات پر غصہ آیا۔ اسے گریبان سے پکڑ کر بولا۔" تیرا مسجد میں کیا کام، تو کون سی ایسی نیکی کرکے آیا ہے جو جنت مانگ رہا ہے۔"
وہ شخص بولا۔" یہ خدا کا
ایک دن ایک مدعی نے جو خدا کی عظمت سے آگاہ نہ تھا حضرت علی مرتضیٰ سے کہا کہ تم محل کے کوٹھے پر ہو اور خدا حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ اس سے بھی واقف ہو۔ حضرت علی نے فرمایا کیوں نہیں۔ وہ ہماری ہست وبود کا بچپن سے جوانی تک حفیظ و مربی رہاہے۔ اس نے کہا اگر ایسا ہے تو اپنے کو کوٹھے سے گرا کر
ایک واعظ جب وعظ کے لیے چوکی پر بیٹھتا تو گمراہوں کے لیے دعا کیا کرتاتھا۔ وہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر دعا کرتاتھا یا اللہ ظالموں اور بدکاروں پر رحمت نازل فرما۔ مسخرا پن کرنے والوں، بد فطرتوں، سب سیاہ دلوں اور بت پرستوں تک، غرض سِوا پلیدوں کے اور کسی کے لیے دعا نہ کرتا تھا اور پاک بندوں
عشق مجازی
مولانارومؒ فرماتے ہیں:
محبوب (مرشد) کا حسن ہی عاشقوں کا مدرس بن گیا۔ اس کا چہرہ ہی اُن کی کتاب، درس اور سبق ہوتا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ بھی مرشد کے عشق کو عشقِ حقیقی تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ کے پنجابی ابیات میں سب سے زیادہ ابیات عشق کے
اگرآپ ایسے گروپ میں کام کرناچاہتے ہیں.
جہاں کئی بہترین لوگ آپکی پوسٹس کی رسائی کو بڑھانے کے لیے آپ کی مدد کریں گے۔
گروپ میٹس کےساتھ ملکر اپنے ٹویٹس کی ریچ ، امپریشن، کمائی اور اپنے فولورز کو بڑھائیں.
گروپ میں شامل ہونے کی لیے اس پوسٹ کو لائک اور ری پوسٹ کری۔
کمینٹ میں اپنا X
اعتماد کا بھرم
حسن میمندی سے سلطان محمود غزنوی کے مصاحبوں نے دریافت کیا۔" آج سلطان نے آپ سے کیا کیا باتیں کیں؟"
اس نے جواب دیا۔" یہ باہمی اعتماد کی بات ہے۔ گو یہ تم سے چھپی نہ رہیں گی لیکن جو کچھ سلطان مجھ سے کہہ دیتے ہیں آپ سے نہیں کہتے۔ یاد رکھو، سلطان کو مجھ پر بے حد اعتماد
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
یہ شعر علامہ اقبال کا ہے، جو ان کی نظم “جمہوریت” کا حصہ ہے۔ اس شعر میں وہ جمہوریت پر تنقید کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں ایک غیر اسلامی اور غیر انسانی طرز حکومت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت میں بندوں کو ان کی
لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
کثیر احادیث میں مسلمان پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث یہ ہیں ،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ
چار ہندوستانی ایک مسجد میں داخل ہوئے اور نماز پڑھنے لگے۔ ہر ایک نے الگ الگ تکیبر کہی اور بہت انکسار اور سوزِ درونی سے نماز میں مصروف ہوا۔ جب مؤذن آیا تو ان میں سے ایک کے منہ سے نکل گیا کہ اے مؤذن اذان بھی دی؟ ابھی وقت ہے۔ دوسرے نے بہت عاجزی سے کہا، تم نے نماز میں بات کی، بس نماز
از کفر و ز اسلام بروں صحرائیست
ما را بمیان آن فضا سودائیست
عارف چو بدان رسید سر را بہ نہد
نہ کفر و نہ اسلام و نہ آنجا جائیست
کفر اور اسلام سے باہر کوئی صحرا نہیں ہے
مجھے اس فضا کا سودا ہے
عارف جب وہاں پہنچتے ہیں تو اپنا سر رکھ دیتے ہیں
وہاں نہ کفر ہے نہ اسلام اور نہ
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ خواجہ غریب نواز کی پیدائش 14 رجب 536 ہجری بمطابق 1141ء یا 14 رجب 530 ہجری بمطابق 1135ء میں سیستان یا سجستان(موجودہ ایران) کے علاقے سنجر میں ہوئی۔ ان کا پیدائشی نام حسن تھا اور ان کا آبائی وطن سیستان تھا۔ ان کا شجرہ نسب حضرت علی ابن
کسی بادشاہ نے اپنا ایک بیٹا کسی استاد کے سپرد کیا کہ اس کی تربیت ایسی کر جیسی کہ تو اپنے لڑکے کی تربیت کر رہا ہے۔ ایک سال کی بھرپور محنت کے بعد شہزادہ ویسے کا ویسا ہی رہا جب کہ استاد کا لڑکا کمال و وصاحت میں بلند مقام پر پہنچ گیا۔
بادشاہ نے استاد کی گرفت کی اور بہت ناراض ہوا کہ
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام
پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا
والدین کی چھوٹی سی غلطی بچوں کا مستقبل خراب کر سکتی ہے لہذا کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس سے بچوں کا ذہنی توازن بگڑ جائے.
#ووٹ_سے_لیں_گے_انتقام
#Elections2024
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
گرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر
اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا کر
مرا طریق