کِتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ نئی صُورت سے مُجھے سوچتا ہے
گرچہ اب ترکِ مراسم کو بہت دیر ہُوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے مُجھے سوچتا ہے
میں تو مَرجاؤں اگر سوچتے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کِتنی سہُولت سے مُجھے سوچتا ہے
جِس نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کا ممکن ہونا
دُکھ میں
سیالکوٹ کے جس مکان میں فیض صاحب رہتے تھے اس کے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی ۔ فیض اس کے عشق میں بھی مبتلا تھے ، لیکن ایک دن کالج سے جب واپس گئے تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ آغا ناصر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سال بعد جب فیض ، مشہور ہو گئے اور واپس اپنے شہر آئے تو وہ لڑکی بھی کہیں سے
ہم نے تاخیر سے سیکھے ہیں محبت کے اصول
ہم پہ لازم ہے، ترا عشق دوبارہ کر لیں
یہ بھی ممکن ہے تجھے دل سے بھلا دیں ہم
یہ بھی ممکن ہے تجھے جان سے پیارا کر لیں
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
مظفر وارثی
Tum ko Khabar hui na zamana samjh saka
Hum chupkey chupkey tum pey kai baar mer gaye
تم کو خبر ہوئی نہ زمانہ سمجھ سکا
ہم چپکے چپکے تم پہ کئی بار مر گئے
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
احمد مشتاق
A treat of nostalgia for those who have used cassette players in the past.
Beautifully sung by Noor Jahan
Music composed by Naushad and lyrics penned by Tanvir Naqvi.
1946
آواز دے کہاں ہے ، دنیا میری جواں ہے
اس کو فرصت ہی نہیں وقت نکالے محسن
ایسے ہوتے ہیں بھلا چاہنے والے محسن؟
یاد کے دَشت میں پھرتا ہوں میں ننگے پاؤں
دیکھ تو آ کے کبھی پاؤں کے چھالے محسن
وہ جو اِک شخص متاعِ دل و جان تھا، نہ رہا
اب بھلا کون میرے درد سنبھالے محسنؔ
Us ki umeed-e naz ka hum sey ye maan tha k aap
Umer guzar dijiye, umer guzar di gayi
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
جون
تم ہمیں ساتھ میں رکھا کرو عادت کی طرح
ورنہ ہم اٹھ کے چلے جائیں گے برکت کی طرح
میں نے خود اس کو گناہوں کی طرح چھوڑ دیا
وہ مجھے چھوڑنے والا تھا عبادت کی طرح
منور رانا
دل نے تاوان کی صورت میں لٹایا ہے نصیب
میں نے کھویا ہے مشقت سے کمایا ہوا شخص
یاد آتا ہے تو بڑھ جاتا ہے نقصان کا رنج
زندگی بھر کا اثاثہ تھا گنوایا ہوا شخص
سیالکوٹ کے جس مکان میں فیض صاحب رہتے تھے اس کے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی ۔ فیض اس کے عشق میں بھی مبتلا تھے ، لیکن ایک دن کالج سے جب واپس گئے تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ آغا ناصر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بہت سال بعد جب فیض ، مشہور ہو گئے اور واپس اپنے شہر آئے تو وہ لڑکی بھی کہیں سے
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
احمد مشتاق
جس کے حصے میں ہوں سفر نامے
اس کے حصے میں گھر نہیں آتا
یے محبت کی ایک خوبی ہے
عیب کوئی نظر نہیں آتا
جس دعا میں ملی ہو خود غرضی
اس دعا کا اثر نہیں آتا
شاعرہ: سپنا مولچندانی
منہ زبانی نہ جتاتا کہ محبت کیا ہے
میں تجھے کر کے دکھاتا کہ محبت کیا ہے
کیسے سینے سے لگائوں کہ کسی اور کے ہو
میرے ہوتے تو بتاتا کہ محبت کیا ہے
خوب سمجھاتا تجھے تیری مثالیں دے کر
کاش تو پوچھنے آتا کہ محبت کیا ہے
شاعر و آواز: رانا سعید دوشی
اسی سے جان گیا میں کہ بخت ڈھلنے لگے
میں تھک کے چھاؤں میں بیٹھا تو پیڑ چلنے لگے
میں دے رہا تھا سہارے تو اک ہجوم میں تھا
جو گر پڑا تو سبھی راستہ بدلنے لگے
(فرحت عباس شاہ)
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
احمد ندیم قاسمی
بھلے دنوں کی بات ہے
بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن تام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں
Ghair k haath sey merham mughay manzoor nehi
Tum agar zakham bhi dey do to gawara hai mughay
غیر کے ہاتھ سے مرہم مجھے منظور نہیں
تم اگر زخم بھی دے دو تو گوارا ہے مجھے
تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ
مرے علاوہ ہیں چھے لوگ منحصر مجھ پر
مری ہر ایک مصیبت کو ضرب سات سمجھ
عمیر نجمی
آج ایک بات تو بتاؤ مجھے
زِندگی خواب کیوں دِکھاتی ہے
کیا سِتم ہے کہ اب تیری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کون اِس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
جون ایلیا