آج آیڈیو لیکس کمیشن کے چیئرمین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ممبران نے کاروائی کا آغاز کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کوئی چیز خفیہ نہیں رکھ رہے، خدا نہ کرے میرا بیٹا اغوا ہو جائے اور اغوا کار کی کال ریکارڈ کی جائے تو کیا وہ پرائیویسی کا بہانہ کر سکتا ہے؟
ہمیں جو ذمہ داری دی گئی ہے ہم وہ کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے ماتحت عدلیہ اور ایگزیکٹو پر لاگو ہوتے ہیں خود سپریم کورٹ پر کیوں نہیں؟
ضابطہ اخلاق کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا گیا ہے، خود قانون پر عمل نہیں کرتے اور ہمیں قانون سکھانے بیٹھ گئے ہیں، چلیں ہم قانون سیکھ لیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا نام لیے بغیر کہا کہ دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے. زیادہ نہیں تھوڑی بہت تو ہونی چاہیے.
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہو سکتا ہے جن کی مبینہ آڈیوز آئیں انھوں نے خود ریکارڈ کرکے لیک کی ہوں۔
مبینہ آڈیوز کے خلاف درخواست گزاران نے عوامی مفاد عامہ کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا، انفرادی مفاد کو عوامی مفاد عامہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟عدلیہ کی ساکھ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
بعدازاں آڈیو لیکس کمیشن نے کاروائی عدالتِ عظمیٰ کے حتمی فیصلے تک روک دی۔
جہانزیب عباسی کی رپورٹ
@EngShahbazAhmad
Yes telling right aysa he hy. In main Kuch Insaf k nam per Dalal hy. In sub ko Phansi milni chahiyy. Yy sary bghyrat Dalal awr saholat kar hy.
#داماد_کی_داڑھی_میں_تنکا